اس ویب ڈویلپمنٹ کا مقصد دستاویزات کی تحریر و تکمیل اور انکی رجسٹریشن کے لیے ایک منظم طریق کار وضع کرنا ہے تا کہ عوام الناس کی باہمی نوعیت کی دستاویزات و یاداشت ہائے کو احسن اور منظم طریقے سے محفوظ کیا جا سکے جو کسی بھی قانونی پیچیدگی کی صورت میں فریقین معاہدہ کے لیے یاداشت ہو اور ایک غیر جانبدار فورم پر ناقابل تغیر حالت محفوظ ہونے کی وجہ سے اس تک بدنیتی سے رسائی کی کوئی صورت نہ ہو اور آن لائن طریق کار کے ذریعے اس کی فوری تصدیق ممکن ہو سکے۔ پچھلے تین عشروں میں جس تیزی سے ڈیجیٹل ترقی ہوئی ہے اس کی وجہ سے نقلی دستاویزات کی تیاری میں پیشہ ور جعلسازوں نے بہت مہارت حاصل کر لی ہے اور مینول نظام اسٹام فروشی کرپشن اور جعلسازی کی نظر ہو کر اس حد تک ناقابل بھروسہ ہو چکا ہے کہ اس پر خود محکمہ مال کے افسران اعتماد کرنے سے قاصر ہیں بلکہ ہر دستاویزکی تصدیق اور توثیق کے لیے دیگر طریق کار اور افسران پر بھروسہ کیا جاتا ہے،جسکی وجہ سے دستاویزات کی تیاری کا مقصد ختم ہو کر رہ گیا ہے۔ دوسری طرف دستاویزات کے لیے تیاری کے لیے معاونین کا کردار ادا کرنے والے وثیقہ نویس حضرات جو سالہا سال کی محنت سے اس فن میں مہارت حاصل کرنے کے بعد عوام الناس کو اپنی خدمات فراہم کیا کرتے تھے اور دستاویزات کی تصدیق کے لیے اپنے پاس باضابطہ اندراج کے لیے رجسٹر میں دستخط و نشان انگوٹھا جات ثبت کراتے تھے جو کسی بھی قانونی پیچیدگی کی صورت میں نہایت معاون و مددگار ثابت ہوتے تھے بلکہ اصل دستاویزات کی گمشدگی کی صورت میں ان رجسٹرہائے کی مدد سے اصل معاملہ کی تہہ تک پہنچنا ممکن ہو جاتا تھا اور فریقین تنازعہ میں فیصلہ اس رجسٹر کو ایک مرتبہ ملاحظہ کرنے ممکن ہو جاتا تھا۔ لیکن اب چند تجربہ کار وثیقہ نویس حضرات کے علاوہ اکثر حضرات اپنے وثیقہ رجسٹر میں بطور یاداشت فریقین کے دستخط انگوٹھا ثبت کراتے ہیں ، جبکہ اکثریت ڈیجیٹل طریقے سے کمپیوٹر پر یا بذریعہ فوٹو اسٹیٹ مضامین اسٹامپ پر چھاپ کر فریقین معاہدہ کی دستاویزات تیار کرادیتے ہیں جسکا کوئی ریکارڈ اپنے پاس محفوظ نہیں رکھتے جو کہ بعد ازاں کسی فریق کی بدنیتی کی صورت میں دستاویزات میں تبدیلی کرنا ایک عام سی بات بن کر رہ گیا ہے جسکی وجہ سے عدلیہ پر روزافزوں مقدمات کا دبائو بڑھتا جا رہا ہے ، دوسری جانب کسی دستاویز میں جعلسازی کو کھوجنے کا طریقہ کار اس قدر سست اور پیچیدہ ہے جس کی وجہ سے کئی سال مقدمہ بازی میں لگ جاتے ہیں اور جب تک کسی جعلسازی کا فیصلہ ہوتا ہے تب تک فریقین تنازعہ میں سے ایک یا دونوں اس دار فانی سے رخصت ہو چکے ہوتے ہیں، اور یہ اس معاملہ کی بات ہو رہی ہے جہاں جعلسازی فوراً قانون کی گرفت میں آ جائے ، جہاں جعلسازی قانون کی گرفت سے نکل جائے وہاں اس جعلسازی کی بنیاد پر دوہرے تہرے معاہدہ و دستاویزات تیار ہو جاتی ہیں جسکی وجہ سے اصل جعلساز کا تعین اور مظلوم کی حق رسی صرف ایک سوالیہ نشان بن کر رہ جاتی ہے۔ ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ بعض غیر تربیت یافتہ یا قانونی پیچیدگیوں سے نابلد وثیقہ نویس حضرات دستاویزات کی تحریر و تکمیل میں ایسی خامیاں چھوڑ دیتے ہیں جن کی وجہ سے بعد ازاں کی موقع پر جب ان دستاویزات کی پڑتال کی نوبت آتی ہے تو بوقت تحریر کی گئی غلطیاں اس دستاویزات کی جانچ و پڑتال کو ناممکن بنا دیتی ہیں جسکی وجہ سے فریقین تنازعہ میں فیصلہ ناممکن ہو جاتا ہے۔ پاکستان کے مختلف علاقوں میں دستاویزات کی تحریر و تکمیل کے طریقہ کار میں بھی زمین آسمان کا فرق ہے کسی علاقہ میں چھوٹی چھوٹی باریکیوں کو بھی مد نظر رکھا جاتا ہے جبکہ کسی علاقہ میں صرف بنیادی نوعیت کے امور دستاویزات میں درج کرنا ہی مناسب تصور کیا جاتا ہے ۔ جسکی وجہ سے دستاویزت میں یکسانیت نہیں اور دوسرے یہ کہ ناتجربہ کار اور فن وثیقہ نویسی سے نابلد لوگ جب دستاویزات قلمی یا کمپیوٹرائز بنواتے ہیں تو بہت سے ضروری نکات کو نظرانداز کر دیتے ہیں۔ دستاویزات کی کوئی معیاری شکل موجود نہیں جس سے تقابلہ کر کے کسی دستاویز کی جانچ کی جا سکے کہ آیا دستاویز کی قانونی حیثیت بن چکی ہے یا اس میں اگر کوئی قانونی یا واقعاتی سقم ہے تو کس نوعیت کا ہے اور کسی طرح دور کیا جا سکتا ہے۔ ان حالات میں جب روز روز زندگی کے ہر شعبہ میں ترقی تیزی سے ہو رہی ہے اور دستاویزات کا ریکارڈ منضبط رکھنے ، انہیں کسی قسم کی جعلسازی سے محفوظ رکھنے و اس کی پڑتال کرنے کی ضرورت بڑھتی جا رہی ہے،پاک ڈیڈز رجسٹریشن سسٹم ایک اہم پیشرفت ہے۔